مقبوضہ فلسطین،22مئی(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کو اسرائیل پہنچنے پر خطے میں امن اور استحکام قائم کرنے کے لیے ایک نادر موقعے کے بارے میں بات کی ہے۔تل ابیب کے ہوائی اڈے پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے مختصر بات چیت میں انھوں نے امریکی اور اسرائیل کے اٹوٹ بندھن کا بھی ذکر کیا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ صدر کی حیثیت سے اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر اس قدیم اور مقدس سرزمین پر امریکہ اور اسرائیل کی ریاست کے درمیان اٹوٹ رشتوں کا اعادہ کرنے آیا ہوں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے سامنے ایک انمول موقع ہے کہ ہم خطے اور یہاں کے لوگوں کے لیے امن اور استحکام بحال کریں، دہشت گردی کو شکست دیں اور خوشحالی، امن اور آشتی کا مستقبل یقینی بنائیں۔ لیکن یہ سب کچھ مشترکہ کوششیں سے حاصل کیا جاسکتا ہے اور اس کے لیے دوسرا کوئی اور راستہ نہیں۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب کا دورہ کرنے کے کے بعد اسرائیل پہنچے ہیں۔سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں انھوں نے عرب اور مسلم دنیا کے دیگر سربراہان کے لیے منعقد اجلاس سے خطاب کیا تھا۔امریکی صدر نے اسرائیل اور فلسطین کے امن معاہدے کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ قطعی معاہدہ ہوگا۔ تاہم وہ اس بارے میں واضح نظر نہیں آتے کہ اس کے لیے کیا طریقہ کار ہوگا۔انھوں نے کہا کہ وہ اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ یہ دونوں فریق براہ راست مذاکرات میں طے کریں۔
اسرائیلی بستیوں کے حوالے سے ان کا موقف قدرے نرم ہے اور وہ کہتے ہیں کہ امن کی تلاش میں شاید ان بستیوں کی موجودگی نہیں بلکہ پھیلاؤ رکاوٹ ہو سکتی ہے۔مشرقی یروشلم اور غربِ اردن میں سنہ 1967 کے بعد بننے والی ان 140 بستیوں میں چھ لاکھ سے زائد یہودی آباد ہیں۔ یہ وہ سرزمین ہے جس پر فلسطین اپنی مستقبل کی ریاست کا دعویٰ کرتا ہے۔یہ آبادکاریاں بین الاقوامی قانون کے مطابق غیر قانونی ہیں تاہم اسرائیل کو اس پر اعتراضات ہیں۔انھوں نے یروشلم کے معاملے پر بھی کچھ ملا جلا پیغام دیا ہے۔ انھوں نے امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے وہاں منتقل کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی جو کہ فلسطینیوں کو ناراض اور اسرائیلیوں کو خوش کرنے کا باعث ہے۔